سی پیک میں تاخیر کی وجہ بنیادی طور پر پاکستان کے معاشی حالات ہیں،چائنااوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے گوادر کو ایک چھوٹے سے گائوں سے ایک جدید شہر میں تبدیل کردیا ہے جوجدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے،گوادر بندرگاہ پوری طرح فعال ہے اور درآمدات و برآمدات دونوں کے لیے تیار ہے۔ ان خیالات کا اظہار چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو مسٹر یوبونے لاہور چیمبر میں منعقدہ اجلاس کے دورہ سی پیک کے تحت گوادر کی ترقی کے حوالے سے پیشرفت پر روشنی ڈالتے ہوئے کیا۔اس موقع پر لاہور چیمبر کے کاشف انور اور سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری نے بھی خطاب کیا ۔چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے ڈپٹی مینیجر مسٹر وانگ ، لاہور چیمبر کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے گوادر کوسٹل ٹورازم کے کنوینر عاطف خان اور ایگزیکٹو کمیٹی ممبران بھی موجود تھے۔ مسٹر یوبو نے کہا کہ سی پیک میں گوادر نہایت اہمیت کا حامل ہے، گوادر فری زون کے ساتھ ساتھ گوادر کی بندرگاہ اور شہر کی ترقی کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چائنااوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے گوادر کو ایک چھوٹے سے گائوں سے ایک جدید شہر میں تبدیل کردیا ہے جوجدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ انہوں نے گوادر کی ترقی، وسیع تعمیرات، ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے اور ہیلتھ کیئرہولیات میں چین کی سرمایہ کاری کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ گوادر فری زون جو 2018میں فری زون کمپنی کے زیر اہتمام معرض وجود میں آیا، پہلے ہی ایک متحرک فیز ون قائم کرچکا ہے جو بندرگاہ سے ملحقہ 25ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نارتھ فری زون900 ہیکٹرپر محیط ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے ، اس کے باوجود یہاں پسماندگی اور تجارت بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر بندرگاہ پوری طرح فعال ہے اور درآمدات و برآمدات دونوں کے لیے تیار ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے ایک وفد گوادر لے جانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سی پیک میں گوادر کے اہم کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے علاقائی روابط کے لیے اسکے بھرپور استعمال کی ضرورت پر زور دیا جس سے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ سی پیک کے آغاز سے اب تک بہت سی پیش رفت ہوئی ہے مگر ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مسٹر بویو نے گوادر بندرگاہ کی آپریشنل حیثیت، کارگوہینڈلنگ کی صلاحیت اور گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے مکمل آپریشن کے منصوبوں کے بارے میں سوالات کے جوابات دئیے۔ انہوں نے ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کو آسان بنانے کے لیے گوادر بندرگاہ کے بھرپو ر کردار کی ضرورت پر زور دیا ۔