آئل ریفائنری پالیسی کا مسودہ منظور

گوادر سمیت بلوچستان میں چین ،سعودی عرب اور دیگر غیر ملکی آئل ریفائنریز کے لئے مزید ساز گار ماحول بنانے کیلئے آئل ریفائنری 2023ء کی پالیسی کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے ۔

اب تک چین کی طرف سے گوادر میں 4.5بلین ڈالر کی آئل ریفائنری ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے 10 بلین ڈالر کی ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کی سرمایہ کاری میں پیشرفت جاری ہے ۔ ملک میں نئی غیر ملکی سرمایہ کاری اور آئل ریفائنری انڈسٹری کو ترقی دینے کے لئے مختلف ٹیکسوں میں چھوٹ اور دیگر مراعات کوآئل ریفائنری 2023ء پالیسی کے مسودے کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔

ریفائننگ پالیسی دو نکات پر مشتمل ہے جس میں ایک موجودہ مقامی ریفائنریز سے متعلق ہے جبکہ دوسرا ملک میں نئی ریفائنریز کے لیے سرمایہ کاری سے متعلق ہے۔اس پالیسی میں کسٹم ڈیوٹی، سرچارجز، ودہولڈنگ ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، کوئی دوسرا ایڈ ویلیورم ٹیکس، یا انسٹال کیے جانے والے آلات یا ریفائنری میں استعمال کیے جانے والے آلات کی درآمد پر کسی بھی قسم کی پیشگی شرط کے بغیر چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے۔

انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ذریعے سرٹیفیکیشن پالیسی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی اور مقامی ٹیکسوں سے چھوٹ دینے میں سہولت فراہم کرے گی۔یہ چھوٹ غیر ملکی ٹھیکیداروں یا ذیلی ٹھیکیداروں کو پاکستان میں کی جانے والی تعمیرات، آپریشنز اور انجینئرنگ کی خدمات کے نفاذ سے متعلق صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہو گی ۔پالیسی کے مطابق ریفائنریز کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے گا جو کہ غیر رہائشی افراد (بشمول ٹھیکیدار یا ٹھیکیدار کے عملے)کی مشینری/سامان کی خریداری کی وجہ سے ادا کی جائیں گی۔ پالیسی کے مسودے کے مطابق یکم جنوری 2023 سے 31 دسمبر 2028 کی مدت کے دوران قیمتوں کے تعین کے نظام کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی صورت میں ریفائنریوں کو سابق ریفائنری قیمت میں مروجہ کسٹم ڈیوٹی برقرار رکھنے کی اجازت ہوگی۔اگر 31 دسمبر 2028 کے بعد قیمتوں کا تعین کرنے کا موجودہ طریقہ کار یا قیمتوں کا ایک باقاعدہ نظام لاگو رہتا ہے تو تیار شدہ مصنوعات کی سابق ریفائنری قیمت پر مروجہ کسٹم ڈیوٹی کے اطلاق کا جائزہ لیا جائے گا۔ 31

دسمبر 2028 کے بعد قیمتوں کے تعین کے نظام کو ختم کرنے کی صورت میں ریفائنریز اپنی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے آزاد ہوں گی۔ مندرجہ بالا کسٹم ڈیوٹی کے علاوہ، 10 ان لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن فریم ورک کے تحت آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)کو واپس کیا جائے گا۔او جی ڈی سی ایل کے اہلکار نے بتایا کہ گزشتہ 40 سالوں میں پاکستان میں کوئی نئی ریفائنری نہیں لگائی گئی جس کے لیے ایک نئے پلانٹ کی ضرورت ہے جو ملک کی پیٹرولیم کی طلب کو پورا کرنے کے لیے یومیہ 400,000 بیرل خام تیل کو پروسیس کر سکے۔ موجودہ ریفائنریز کو اپ گریڈ کرنے سے صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کی نصب شدہ صلاحیت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان کی آئل ریفائنریز پیٹرولیم مصنوعات کی سالانہ طلب کا 55 فیصد پورا کر رہی ہیں اور 1 بلین ڈالر کا زرمبادلہ بچا رہی ہیں۔ اس سے 100,000 سے زیادہ لوگوںکو بالواسطہ یا بلا واسطہ روزگار کے مواقع فراہم ہو رہے ۔پالیسی کے تحت چین اور خلیجی خطے سے آنے والی آئل ریفائنریوں کو گرین لائٹ کرنے کے لیے مراعات کے علاوہ اس کے علاوہ ملک کی طلب کو پورا کرنے کے لیے 10سے15بلین ڈالر کی پیٹرو کیمیکل کے ساتھ 300,000 سے 400,000 بیرل یومیہ کی گنجائش کے ساتھ اضافی ریفائنری کی بھی ضرورت تھی جو اس وقت درآمدات کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے۔پاکستانی حکومت پانچ مقامی ریفائنریوں کو اپ گریڈ کرنے پر بھی زور دے رہی ہے جس کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔