بیس میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا منصوبہ

گوادر پورٹ اتھارٹی نے گوادر پورٹ، گوادر فری زون سائوتھ اور نارتھ کو فعال بنانے کے لیے 20میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دیدی ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت اس مد میں تقریباً 727.738 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے انتظامی اور ساختی طریقہ کار کو پہلے ہی منظور کر لیا ہے۔

چائنہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کے اہلکار نے بتایا کہ ٹرانسمیشن لائن کے بنیادی ڈھانچے کی ڈیزائننگ کے لیے ایک کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں اور جیسے ہی لے آئوٹ کو حتمی شکل دی جائے گی گوادر پورٹ کے احاطے میں بچھائے جانے والے بجلی کے نیٹ ورک کو مین گوادر گرڈ سٹیشن سے منسلک کر دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی اور کیسکو کے ساتھ مل کر ٹرانسمیشن لائنوں کے دو پیکجوں پر بھی کام کیا جارہا ہے ۔ ایک پیکج میں ایسٹ بے ایکسپریس وے کے ساتھ انرجی کوریڈور (سروس روڈ)کے ذریعے گوادر پورٹ کی حدود سے باہر تک تقریباً 12 کلومیٹر کی ترسیل شامل ہے۔ دوسرے پیکیج میں گوادر گرڈ اسٹیشن سے گوادر فری زون نارتھ تک تقریباً 350میٹر ٹرانسمیشن لائن شامل ہے۔اہلکار نے بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بلا تعطل فراہمی کے ساتھ صنعتی مقاصد کے لیے بجلی کا ٹیرف 35روپے سے 45روپے کے درمیان ہو سکتاہے ۔

اس اقدام سے گوادر پورٹ اور گوادر فری زونز کو 8.5میگاواٹ ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر سے پیدا ہونے والی مہنگی بجلی سے چھٹکارا مل سکے گا ۔ گوادر بندرہ گاہ 2015سے 2023تک ڈیزل جنریٹر سے مہنگی بجلی استعمال کر رہی ہے جس سے مالیاتی بل پر بھاری نقصان ہو رہا ہے۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے کے عہدیدار نے کہا کہ 20میگاواٹ بجلی کی فراہمی سے گوادر، گوادر پورٹ اور گوادر فری زونز میں اقتصادی اور صنعتکاری سرگرمیاں فروغ پائیں گی ۔ اس سے قبل گوادر پورٹ آپریٹر کو چینی پاور پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر 50میگاواٹ کے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کا پلانٹ لگانے کی تجویز پیش کرنی پڑتی تھی۔طویل عرصے سے چینی کمپنیاں حکومت کی جانب سے بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے گوادر فری زون میں 8.5میگاواٹ کے جنریٹرز کے ذریعے بجلی کی مہنگی پیداوار کی وجہ سے دبا ئوکا شکار ہیں۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا جس سے کارپوریٹ فنانس پر بہت زیادہ بوجھ پڑا۔بتایا گیا ہے کہ گوادر فری زون کے لئے ماہانہ 20.3ملین روپے سے ڈیزل کی خریداری کی جاتی رہی ہے اورڈیزل سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت 49روپے پڑتی ہے اور ڈالر کے اتار چڑھا ئواور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ماہانہ خریداری 40ملین تک پہنچ گئی ہے ۔چائنہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کے اہلکار نے کہا کہ ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک کہ وافر بجلی دستیاب نہ ہو۔ جنریٹرز کے ذریعے بجلی کا حصول بہت مہنگا ہے ۔چینی سرمایہ کار اپنی صنعتیں چین سے پاکستان منتقل کرنے کے خواہشمند ہیں،سرمایہ کاری کے شعبے بہت متنوع ہیں جوریفائنری، پیٹرو کیمیکل اور ٹیکسٹائل تک محدود نہیں۔گوادر پورٹ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے متعدد راستے کھولنے کے علاوہ پاکستان کے معاشی منظر نامے کو نئی شکل دینے کے لیے تیار ہے۔