نیا جدید گوادر جہاز سازی کا منصوبہ

پاکستان کی سب سے گہری بندرگاہ، گوادر میں ”ماڈرن شپ یارڈ”کے قیام کے لیے موزوں ترین زمین کی الاٹمنٹ کے لیے کوششیں جاری ہیں جس سے تجارتی جہاز سازی اور مرمت کی صنعت کو فروغ ، نئی ملازمتیں پیدا ہونے کے ساتھ معاشی ترقی بھی ہو گی ۔

پی ایم سی کے پراجیکٹ مینیجر داد اللہ نے بتایا کہ حکومت بلوچستان نے موضع کپر گوادر میں 750 ایکڑ زمین الاٹ کی ہے جو سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے۔ مختص کی گئی زمین گوادر ماڈرن شپ یارڈ کی تعمیر کے لیے موافق نہیں ہے،تکنیکی طور پر شپ یارڈ کو ایسی زمین کی ضرورت ہے جو صفر بلندی پر ہو۔انہوں نے کہا کہ حتمی تجویز میں موضع کپرکے بجائے ہم نے سُربندر کا علاقہ ماڈرن شپ یارڈ کی تعمیر کے لیے موزوں ترین زمین کے طور پر تجویز کیا ہے جو منصوبے کے لئے انتہائی موزوں ہے ۔دوسرا یہ گوادر ماسٹر پلان 2050 میں شامل کیا گیا ہے اوریہاں قدرتی بندرگاہ کے لئے ماحولیاتی فوائد بھی ہیں۔

انہوںنے کہا کہ سُربندر کی زمین کے ارد گرد بہت سی متعلقہ سہولیات آسانی سے دستیاب ہیںجس سے منصوبے کی تکمیل میں مزید آسانی میسر آئے گی ۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ نئے شپ یارڈ منصوبے کے لیے موضع کپرمیں 750 ایکڑ اراضی کی حد بندی کی تھی جو گوادر پورٹ سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ہے جبکہ سُربندر میں نئی مجوزہ زمین گوادر پورٹ سے صرف 24 کلومیٹر دور ہے۔ گوادر بندرگاہ پر آنے والے کارگو جہازوں کو ڈرائی ڈاکنگ کی ضروری سہولیات فراہم کرنے کے علاوہ گوادر شپ یارڈ نئے جہازوں کی تعمیر کے لیے خدمات بھی پیش کرے گا۔

پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے فروری 2021 میں گوادر شپ یارڈ کے قیام کے لیے ایک ایم او یو پر دستخط کر کے تعاون کا اعلان کیا ہے۔ گوادر شہر میں یہ منصوبہ علاقائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ بلوچستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے بھی اہم اورنا گزیر ہے ۔اس منصوبے سے مجموعی طور پر مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہونے کے ساتھ صوبے کے لیے محصولات میں بھی اضافہ کرے گا۔بحری امور کے تجزیہ کار شبیر جلیل نے کہا کہ جہاز سازی کی صنعت ملکی معیشت، خوشحالی اور سماجی ترقی کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ روزگار پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور یہ صنعت کئی دیگر صنعتوں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے۔یہ صنعت تجارتی شعبے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

چین، جاپان اور جنوبی کوریا اس وقت تین ممالک ہیں جو عالمی جہاز سازی کی صنعت پر حاوی ہیں۔اس وقت پاکستان کی جہاز سازی، مرمت اور دیکھ بھال کا کام سرکاری ملکیت والے کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس میں کیا جا رہا ہے۔ 1950 کی دہائی کے وسط سے کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ نے مقامی اور بین الاقوامی صارفین کے لیے مختلف اقسام کے 500 سے زیادہ تجارتی اور بحری جہاز بنائے ہیں۔ کراچی شپ یارڈ کی طرف سے بنایا گیا سب سے بڑا جہاز تجارتی جہاز الباس تھا جو 28,000 ڈیڈ ویٹ ٹنیج کیریئر تھا۔ گوادر کی گہری بندرگاہ پر بہتر صلاحیت اور جدید ترین سہولیات کے ساتھ نیا مجوزہ شپ یارڈ پاکستان کی جدید جہاز سازی اور مرمت کی ضروریات کو پورا کرے گا اور علاقائی ممالک کی ابھرتی ہوئی ضروریات کو بھی پورا کرے گا۔