پتہ نہیں کون کیا چاہتا ہے

اگرچہ میرے ان سے کبھی اچھے مراسم نہیں رہے مگرچوہدری پرویزالٰہی کے گھر پرپولیس کا حملہ ناقابل قبول ہے۔یہ حملہ صرف اس لئے ہوا کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔آج میرے جیسے کتنے لوگ جو کبھی چوہدری برادرانکے مداح نہیں ، یہ کہنے مجبور پرہونگے ہیں کہ سرکنڈوں میں کماد بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ چوہدری پرویزالٰہی نے عمران خان کا ساتھ دے کرنہ صرف بہترین فیصلہ کیا بلکہ مونس الہٰی کو ایک تابناک مستقبل سے بھی ہمکنار کردیا ہے ۔تاہم یہ طے ہے کہ پلٹ پلٹ کر آنے والے عہد ِجیب تراش سے نجات آسان نہیں۔ ہائے وہ لوگ جنہوں نے میرے وطن کو”مملکت ِ جیب تراشاں“ بنا رکھا ہے۔

ایک چھوٹی سی مثال۔پاکستان میں کئی میٹروز بنائی گئیں اور پھر ان کے ڈنکے بجائے گئے۔بسوں کیلئے سڑکوں کے اوپر یہ سڑکیں لاہور،اسلام آباد،راولپنڈی ملتان اور کراچی میں بنائی گئیں۔ پوری دنیا میں ان کی کوئی مثال موجود نہیں۔بناتے وقت اس سلسلے میں ترکی اور میکسیکو کا نام لیاگیا۔ یقین کیجئے کہ وہاں صرف بس لاینیں ہیں۔ان سب میٹروزپر آنے والی لاگت کو جمع کیا جائے تو معاملہ اربوں نہیں کھربوں تک پہنچ جائے گا۔میٹرو کالفظ دراصل زیرزمین یا بلندی پر چلائی جانے والی ٹرینوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔یعنی لاہور میں اورنج ٹرین ایک میٹرو ہے۔،ان ٹرینوں کے اسٹیشنوں سے جوبسیں وغیرہ چلتی ہیں۔انہیں بھی کہیں کہیں میٹرو بس کہا گیا ہے۔مگر صرف بسوں کیلئے بلندی پر یا زیر زمین کہیں بھی کوئی سڑک دنیا میں نہیں بنائی گئی کیونکہ یہ سرمائے کے زیاںکے سوا کچھ نہیں۔دنیا میں ہر سڑک پر ایک ”بس لین“ ہے جس پر صرف بسیں آتی جاتی ہیں کوئی اور ٹریفک نہیں چل سکتی۔پاکستان میں صرف اتنا مسئلہ تھا کہ بس لین پر دوسری ٹریفک کے آنے کے امکانات زیادہ تھے۔ کیونکہ یہاں لوگ ٹریفک کے قوانین کو کم فالو کرتے ہیں۔ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ ٹریفک پولیس سختی کے ساتھ اس قانون پر عمل درآمد کراتی کہ بس لین میں کوئی اور ٹریفک نہ داخل ہو مگر اس کا م کی بجائے بسوں کیلئے اربوں روپے لگاکر بلندی پر سڑکیں تعمیر کی گئیں۔سوچئے کہ اتنے کثیر سرمائے سے بننے والی سڑکوں پر دن بھر کتنی بسیں چلتی ہونگی۔لوگ کہتے ہیں سریا اور سیمنٹ فروخت کرنا تھا۔ میرا یہ بھی مسئلہ نہیں کہ جس نے جو کرنا تھا کرتا۔جو کمیشن لینا تھا لیتا مگراس چیز کی اتنی افادیت تو ہوتی جتنا پیسہ خرچ کیا جارہا تھا۔وہی کام جو صرف قانون کے عمل درآمد سے ممکن تھا اس کیلئے اربوں لگا دئیے گئے۔اب یہ ممکن ہے کہ وہاں ایک مخصوص فیس کے ساتھ کاروں کو چلنے کی اجازت دے دی جائے تو ممکن ہے کچھ برسوں میں کچھ نہ کچھ پیسہ واپس آجائے۔

اس ملک کے بڑے بڑے اداروں میں ایسا ایسا ذہین شخص بیٹھا ہوا ہے کہ کیا کہنے۔جب لاہور اسلام آباد موٹروے بنائی جارہی تھی تو صاحبان ِفیصلہ کو بتایا گیا کہ لاہور سے اسلام آباد کا شارٹ ترین روٹ دوسو ستر کلو میٹر سے کچھ کم ہے۔اس وقت جی ٹی روڈ استعمال ہوتا تھا وہ تین سو کلو میٹر تھامگر تین سو اٹھہتر کلو میٹر لمبی موٹر وے بنانے کی منظور ی دی گئی۔ذرا سو چئے کہ اگر لاہور سے اسلام آباد کا سفر دو سوا دوگھنٹوں پر مشتمل ہوتا تو کتنی بچت ہوتی۔انیس سو بانوے سے لے کراس وقت تک اربوں روپے کاپٹرول ضائع ہوچکاہے۔وقت کا ضیاع اپنی جگہ پر ہے۔اس سے قرب و جوار کے علاقوں کوموٹر وے سے جوڑنے کیلئے کئی سڑکیں بنی ہوتیں مگر فیصلہ سازوں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی زمینیں شایدموٹروے کے گزرنے سے قیمتی ہونا تھیں۔

ٰٓایک کارنامہ اور بھی ایسا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ ہر شہر کے باہر کالونیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔شہروں کے اردگرد شہروں سے بڑے شہر وجود میں آ گئے۔ کھیت ختم ہو گئے۔ باغات کاٹ دئیے گئے۔ سبزے کی جگہ کنکریٹ نے لے لی۔بڑے شہروں میں سانس لینا دشوار ہو گیا۔اصولی طور پر ایک مخصوص حد سے شہروں کو بڑھاناان شہروں کو تباہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے مگر حکمراںکو کون سمجھاتا کہ وہ جو اقبال کہہ گئے ہیں ”کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد“ اس کامطلب کیا ہے۔اگر نئے شہر آباد کئے جاتے تو بے شمار مشکلات پیدا ہی نہ ہوتیں۔کیا کیا کارنامے شمار کروں۔نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی آئین۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔پہلے عمران خان کے گھر کا دروازہ توڑا گیا۔اب چوہدری پرویزالٰہی کے گیٹ سے قانون کے رکھوالوں نے بکتر بند گاڑی ٹکرا دی۔ دوسری طرف مذاکرات کا شور ہے۔تیسری طرف امریکی سفیر فواد چوہدری سے ملنے ان کے گھر آئے ہیں۔وہ عمران خان کیلئے کیا پیغام دے گئے ہیں۔ابھی کچھ معلوم نہیں۔پتہ نہیں کون کیا چاہتا ہے۔