گوادر میں بی آر آئی کے ثمرات

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آرآئی)کے تحت گوادر میں چلنے والی گارمنٹ فیکٹری مقامی خواتین کو با اختیار بنانے میں نہ صرف اپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہے بلکہ اس سے گوادر میں کم آمدن والے خاندانوں کے دروازوں پر خوشحالی نے بھی دستک دی ہے ۔گوادر ویمن فیکٹری جسے گوادر ویمنز ڈویلپمنٹ ایمپلائمنٹ سینٹر بھی کہا جاتا ہے 2020 سے چینی قونصلیٹ کراچی کے تعاون سے کام کر رہا ہے اور اس کا انتظام چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کی گوادر ویمن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے زیر انتظام ہے۔

گوادر بندرگاہ پر چینی اہلکار نے بتایا کہ یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت وجود میں آیا ہے تاکہ صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے پر کردار ادا کیا جاس کے ۔ خواتین کے لیے گوادر گارمنٹ فیکٹری جیسا اقدام بین الاقوامی قانون کے تحت بی آر آئی فریم ورک کے اندر خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے چین کی ذمہ داریوں کے مطابق ہے۔ سلائی کے متعلقہ جدید آلات، پر امن ماحول اوردیگر سہولیات سے مزین گوادر ویمن گارمنٹ فیکٹری کا شہر میں چرچا ہے کیونکہ یہ نہ صرف غیر ہنر مند خواتین کو تربیت دینے کے مواقع کا ایک نیا باب ہے بلکہ نیم ہنر مند خواتین ٹیلروں کوجدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ان کی مہارت سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔

گوادر گارمنٹ فیکٹری کی نگرانی بھی مقامی خاتون زیتون عبداللہ کر رہی ہیں جو گوادر میں ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔ خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوادر گارمنٹ فیکٹری خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک حقیقی کامیابی کی کہانی ہے۔یہاں کام کرنے والی تمام خواتین کو پک اینڈ ڈراپ خدمات مفت فراہم کی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کے گھر والے ان کے آنے جانے کے لیے مطمئن ہیں۔ گوادر میں ایک سماجی کارکن رحیم بلوچ نے کہا چونکہ ہمیں چینی اور گوادر پورٹ آپریٹر پر مکمل اعتماد ہے اس لیے یہ احساس ہمیشہ غالب رہتا ہے کہ ہماری خواتین اپنے کام کی جگہ پر محفوظ ہیں۔ گوادر گارمنٹ فیکٹری کے اسسٹنٹ منیجر زیتون عبداللہ نے کہا کہ گوادر مینوفیکچرنگ کی نوکریاں جیسے ٹیلرنگ گوادر میں ان تخلیقی خواتین پیشہ ور افراد کے لیے ایک فائدہ مند کیریئر کا انتخاب ہے جو یہ کام کرنا پسند کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں گوادر گارمنٹ فیکٹری کم از کم اتنی موثر ہو گئی ہے کہ وہ گوادر پورٹ میں چینی کمپنیوں کے ورکرز کے تقریباً تمام یونیفارم سلائی کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری خواتین ٹیلرز بھی چینی اعلی شخصیات کے لیے پاکستان کے روایتی مردانہ کپڑوں کو سووینئر کے طور پر سلائی کر رہی ہیں جو انہیں پاکستان کے خصوصی دنوں پر پہننے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ گوادر میں خواتین بہت باصلاحیت ہیں، لیکن پہلے ان کے پاس اپنی صلاحیتیں دکھانے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ خواتین کو سلائی کی بنیادی مہارتیں سکھانے کے لیے کئی پیشہ ورانہ تربیتی ادارے موجود ہیں لیکن یہ مرکز اس نوعیت کا پہلا ادارہ ہے جو ہنر مند خواتین کو منظم طریقے سے آمدنی حاصل کرنے کا کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز میں زیادہ تر خواتین زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، جب کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کچھ کرنے کے بڑے خواب دیکھتی ہیں، اس لیے انہوں نے مرکز میں شمولیت اختیار کی اور اپنے خوابوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے سخت محنت کی۔سی او پی ایچ سی کے چیئرمین یو بو نے کہا کہ گوادر گارمنٹ فیکٹری خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنانے میں مدد کا ایک نقطہ آغاز ہے جس سے انہیں اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور غربت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔