گوادر میں چینی حکام کے قافلے پر دہشتگردوں کا حملہ

گوادر میں دہشتگردوں کی جانب سے چینی حکام کے قافلے پر حملہ کر دیا گیا تاہم خوش قسمتی سے حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ،گوادر میں چینی حکام پر یہ دوسرا بڑا حملہ ہے ،گوادر میں مقامی سوشل میڈیا کی اطلاعات اور وٹس ایپ گروپس کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے )کے مجید بریگیڈ نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ،سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا اور آخری اطلاعات تک مقابلے میں ایک دہشتگرد ہلاک جبکہ تین زخمی ہو ئے ہیں ۔

بتایا گیا ہے کہ تین گاڑیوں میں سوار چینی حکام سخت سکیورٹی میں ائیر پورٹ سے بذریعہ ایسٹ بے ایکسپریس گوادر جارہے تھے کہ دہشتگردوں کی جانب سے قافلے پر حملہ کر دیا گیا ۔ دہشتگردوں کی جانب سے پہلے ہینڈ گرینیڈ پھینکے گئے جس کے بعدفائرنگ کی گئی تاہم قافلے کی سکیورٹی پر موجود اہلکاروںنے فوری رد عمل دیا اور خوش قسمتی سے واقعہ میں تمام چینی حکام محفوظ رہے اور بحفاظت اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز موقع پر پہنچ گئیں اور علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی فورسز سے مقابلے میں ایک دہشتگرد ہلاک اورتین زخمی ہو گئے ۔

سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے اور علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن بھی شروع کر دیا گیاہے۔گوادر میں مقامی سوشل میڈیا کی اطلاعات اور وٹس ایپ گروپس کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے ) کے مجید بریگیڈ نے چینی حکام کے قافلے پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔ کالعدم تنظیم کی جانب سے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے وال پیپرز پر حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے ۔ یاد رہے کہ گوادر میں مختلف اوقات میں ہونے والا چوتھا اورچینی حکام پر یہ دوسرا بڑا حملہ ہے ۔ 2021میں بھی دہشتگردوں کی جانب سے چینی حکام کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھاجس میں کچھ چینی حکام زخمی ہوئے تھے اور اس کی ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔

علاوہ ازیں گوادر کی سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لئے2020میں گوادر کے گرد باڑ لگانے کا فیصلہ بھی ہوا تھا تاہم پراپیگنڈے کی وجہ سے مقامی افراد کی جانب سے مزاحمت کے باعث یہ منصوبہ شروع نہیں ہو سکا تھا ۔ سکیورٹی کو بہتر بنانے کی غرض سے گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کا منصوبہ بھی سامنے آیا جس کے تحت لاہور اور اسلام آباد سیف سٹی کی طرز پر مختلف مقامات پر 650کے قریب کیمرے لگنے تھے ۔ سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی کے لئے الگ سے بھی ایک منصوبہ کاغذوں میں تیار ہے ۔ ماضی میں بار بار کے مطالبے کی وجہ سے سکیورٹی پر تعینات پاک فوج کو واپس بھجوا کر یہ ذمہ داری پولیس اور لیویز کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم اس حملے کے بعد لگتا ہے علاقے کی سکیورٹی پاک فوج کے کنٹرول میں ہی رہے گی۔