گوادر پورٹ اور ریکوڈک سونے کی ایکسپورٹ پر غور

بلوچستان کے شہر ریکوڈک سے گوادر پورٹ تک تانبے اور سونے کی قابل عمل نقل و حمل کے معاملات طے کرنے کے لئے غور و خوض جاری ہے، اختیارات سمیت دیگر معاملات کو حتمی شکل دینے کے بعد گوادر پورٹ سے یورپ، ایشیاء ، جنوب مشرقی ایشیاء اور مشرق وسطی کے ہدف والے مقامات تک تانبے اور سونے کی ترسیل کی جائے گی ۔

 اس حوالے سے اہم مذاکرت تب ہوئے بلوچستان میں 7 ارب ڈالر کے ریکوڈک تانبے ،سونے کے منصوبے میں شامل بیرک گولڈ مائننگ کمپنی کے حکام نے گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین پاسند خان بلیدی اور چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے چیئرمین یوبو سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے ایک اہلکار کے مطابق ان میٹنگز میں ریکوڈک سے تانبے اور سونے کی برآمد کے لیے گوادر پورٹ کو استعمال کرنے کے لیے عملی فریم ورک پر غور کیا گیا۔ ریکوڈک کا مقام پاکستان کے بلوچستان کے ضلع چاغی میں نوکنڈی سے صرف 70 کلومیٹر شمال مغرب میں اور ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کے قریب صحرائی علاقے میں واقع ہے۔

گوادر پورٹ اتھارٹی کے حکام کے مطابق ملاقاتوں میں ریکوڈک سے گوادر پورٹ تک پائپ لائن کے روٹ اور اسے بچھانے کے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ گوادر فری زون نارتھ یا گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کے تحت بنائے جانے والے مجوزہ صنعتی پارک میں انفراسٹرکچر کے قیام کے امکان پر بھی غور کیا گیا۔بتایا گیا ہے کہ ایک یہ بھی پیشکش پیش کی گئی تھی کہ تانبے اور سونے کی لاجسٹکس میں ماہر چینی کمپنیاں ممکنہ طور پر بیرک گولڈ مائننگ کمپنی کے ساتھ ذیلی کنٹریکٹنگ، جوائنٹ وینچرز، یا شراکت داری کی دوسری صورتوں کے ذریعے تعاون کر سکتی ہیں۔کان کنی کمپنی کے اعلی افسران نے گوادر پورٹ اتھارٹی اور چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کے حکام کے ساتھ 8 سے 10 جنوری 2022 تک ملاقاتیں کیں تاکہ گوادر پورٹ کو ٹرانسپورٹیشن سینٹر کے طور پر استعمال کرنے کا روڈ میپ بنایا جا سکے۔ انٹرپرائز کے وژن کے مطابق نکالی گئی معدنیات کو سڑک کے ذریعے چاغی سے برآمد کرنے کے لیے گوادر پورٹ تک پہنچایا جائے گا۔بیرک گولڈ کمپنی کے حکام کے مطابق اگلے دس سالوں میں اس کان میں 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں تانبے اور سونے کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ کمپنی پہلے چار سالوں میں 4ارب ڈالر اور اگلے چھ سالوں میں 3ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔کمپنی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس سال کے شروع میں حکومت پاکستان، بلوچستان کی صوبائی حکومت اور بیرک گولڈ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس سے 2011 سے رکے ہوئے منصوبے کی تشکیل نو اور اسے دوبارہ شروع میں مدد ملی۔کمپنی صرف کان ہی نہیں چلائے گی بلکہ 50 فیصد اس کی ملکیت بھی ہو گی جبکہ 25 فیصد حصہ بلوچستان حکومت اور باقی 25 فیصد پاکستانی سرکاری اداروں کا ہو گا۔