گوادر پورٹ کی تیز رفتار سر گرمیاں

گوادر بندرگاہ پر روس سے آنے والی 50ہزار میٹرک ٹن درآمدی گندم کو پاکستان ایگریکلچر سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن( پاسکو)کے گوداموں تک ٹرکوں کے ذریعے پہنچانے کا سلسلہ جمعہ کے روز سے شروع ہوگا ۔

روس سے گوادر بندرگا ہ پر گندم لانے والے بحری جہاز سے ہنر مند افرادی قوت نے کرینوں کے ذریعے گندم اتاری اور اب طے شدہد طریق کار کے مطابق باقی مراحل طے کئے جائیں گے۔نیشنل لاجسٹک سیل ، ٹی سی پی ،پاسکو ، سکیورٹی کے اداروں ،گوادر کسٹمز ،گوادر کی ضلعی انتظامیہ، ڈاک سکیورٹی،گوادر پورٹ اتھارٹی اورگوادرانٹر نیشنل ٹرمینل لمیٹڈ کے ساتھ مل کر آپریشنل ٹرانسپورٹیشن کے طریق کار کو حتمی شکل دے رہا ہے۔

اس سارے مرحلے میں مینوئل کی بجائے ویب پر مبنی ون کسٹم کلیئرنس سسٹم کو گوادر پورٹ سے گندم کو پروسیس کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ گوادر پورٹ میں WeBOC پاکستان سنگل ونڈو (PSW) کے تحت زمینی، فضائی اور سمندری راستوں سے متعلق تمام تجارتی طریقہ کار اور لاجسٹک خدمات کی آٹومیشن اور معیارمیں ہم آہنگی کو یقینی بناتا ہے۔ آل گوادر شپنگ کلیئرنگ ایجنٹ ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے بتایا کہ اس سے کنسائنمنٹ پروسیسنگ کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے اہلکار نے کہا کہ چونکہ گوادر پورٹ میں نقل و حمل اور لاجسٹک سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں اور ایسے میں ایک متحرک ای کسٹم تمام کاروباری سرگرمیوں کو تقویت دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ گوادر بندرگاہ کا تمام کارگو سامان کے اخراج اور ترسیل کے لیے صفر ہینڈلنگ نقصان کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تمام متعلقہ محکمے بلوچستان میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے گوادر بندرگاہ سے آنے اور جانے کے لیے متبادل زمینی راستے بھی تلاش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ وزارت مواصلات نے بلوچستان کے راستے 4 نئے متبادل تجارتی راستوں کی نشاندہی کی۔ایک سوال پر کہ گوادر بندرگاہ گندم کی ترسیل اور پروسیسنگ کے معاملے میں پاکستان کی دیگر بندرگاہوں سے کیسے آگے نکل جاتی ہے کا واب دیتے ہوئے آل گوادر شپنگ کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے رکن نے کہا کہ حقائق یہ ہیں کہ گوادر بندرگاہ کراچی پورٹ اور قاسم پورٹ جیسی کسی بھی بندرگاہ سے زیادہ سہولیات دیتی ہے۔مذکورہ دونوں بندرگاہوں پر ہمیشہ رش رہتا ہے اور بحری جہاز ڈیمریج پر جاتے ہیں ، دونوں پر اسٹوریج چارجز بہت زیادہ ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں گوادر بندرگاہ پر تیز ترین سٹیوڈورنگ سروسز کے ساتھ ساتھ کوئی ڈیمریج اور اسٹوریج چارجز نہیں ہیں اور اسے ٹی سی پی کے ریکارڈ سے چیک کیا جا سکتا ہے۔ معاہدے کے مطابق پاکستان نے روس سے ساڑھے 4لاکھ میٹرک ٹن گندم گوادر بندرگاہ کے راستے درآمد کرنی ہے اور اس میں سے 50ہزار میٹرک ٹن گندم کا پہلا جہاز گزشتہ ہفتے گوادر بندرگاہ پر لنگرا نداز ہوا تھا۔