گوادر, چینی ٹیکنالوجی سے ”کنگ گراس ”کی افزائش

گوادر میں چینی ٹیکنالوجی کے ذریعے کاشت کی گئی ”کنگ گراس” جہاں مویشی پالنے والے کسانوں کے لئے انتہائی سود مند ثابت ہوئی ہے وہیں تجارتی بنیادوں پر فروغ سے یہ غربت کے خاتمے میں بھی مدد کا ذریعہ بنی ہے ،کنگ گراس نے موثر خصوصیات کی وجہ سے مویشیوں کے لئے سپر فوڈ اور مقامی لوگوں کے لئے نقد آور فصل کے طور پر اپنی پہچان قائم کر لی ہے ۔

گوادر پورٹ کے فری زون کے علاقے کی لمبائی اور چوڑائی میں کنگ گراس کی کامیاب سے کاشت کے بعد مقامی کاروباری اداروں کو اپنے کاروباری منافع کو بڑھانے کے لیے کنگ گراس کی افزائش کے لیے چینی ٹیکنالوجی ( JUNCAO )کی مدد حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔پائلٹ پراجیکٹ کے مطابق کنگ گراس جسے جادوئی گھاس بھی کہا جاتا ہے دو سال سے زائد عرصہ قبل گوادر پورٹ میں قائم کیٹل فارم میں مویشیوں کی پرورش کے لیے اگائی جاتی تھی۔فری زون کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس گھاس کے استعمال سے نہ صرف صرف جانور توانا ہو گئے بلکہ وہ کسی بھی موسمی یا مہلک بیماری میں مبتلا ہوئے بغیر تندرست رہے۔

انہوں نے کہا کہ بکریاں سرسبز رنگ، لذت ،خوشبو اوردیگر خصوصیات کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ شوق سے کھاتی ہیں۔جائنٹ کنگ گراس مویشیوں کے لیے غذائیت کی بہت سی ضروریات فراہم کرتا ہے،اس میں فائبر، پروٹین اور توانائی کا اچھا مواد ہوتا ہے، جائنٹ کنگ گراس جانوروں کے لئے مہنگی فیڈز کی جگہ لے سکتی ہے ۔پاکستان فارمر ایسوسی ایشن کے صدر میاں منشا سید نے کہا کہ یہ گھاس کی ایک خاص نسل ہے جسے چینی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے جو کہ لکڑی کا ایک اقتصادی اور ماحول دوست متبادل ہے۔ اب تک چین بھر میں 500 سے زائد کانٹیز جنکاو، کنگ گراس لگانے میں حصہ لے چکے ہیں۔ گھاس نے کاشتکاری کے اخراجات کو نمایاں طور پر کم کیا اور ملک میں سالانہ درختوں کی صفائی میں 20 ملین کیوبک میٹر کی کمی کی ہے۔گوادر کا علاقہ اپنی خشک آب و ہوا، زمین کی تنزلی، نمکین یا الکلی مٹی اور دیگر مختلف ماحولیاتی چیلنجوں کی وجہ سے کنگ گراس کے لیے ایک تجربہ ٹیسٹ تھا۔

گوادر پورٹ آپریٹر سی او پی ایچ سی نے چینی سفارت خانے اور چینی یونیورسٹیوں کے ماہرین کے تعاون سے کنگ گراس پروجیکٹ شروع کیا۔ ابتدائی مرحلے میں 2020 کے دوران گوادر پورٹ میں 5 ایکڑ اراضی پر کنگ گراس لگائی گئی اورنتائج نے بالآخر ثابت کر دیا کہ یہاں اس کی کامیابی سے کاشت ممکن ہے ۔کنگ گراس کو بلوچستان اور سندھ کے دیگر حصوں میں پھیلانے کے لیے سی او پی ایچ سی کے اہلکار نے کہا بیج کراچی کے ساتھ ساتھ ملنی ڈیم کے قریب دشت کے علاقے میں کسانوں اور کمپنیوں کو مفت فراہم کیے گئے،اس سرگرمی نے زبردست نتائج دئیے ہیں اور کمپنیاںکنگ گراس کے فوائد سے مستفید ہونے کے لیے اسے مزید بڑھانے کی خواہشمند ہیں۔پاک گرین این جی او کے ڈائریکٹر محمد فخر نے کہا کہ گوادر بندرگاہ کی کنگ گراس چینی عوام کے اچھے اقدامات کا مضبوط نقشہ ہے جس کا مقصد لوگوں کو غربت کے خاتمے، بہتر کمائی اور جنگلات کو فروغ دینے کے لیے بااختیار بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ چین میں کنگ گراس نے غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں سنگ میل کی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ہزاروں لوگوں نے کنگ گراس اگائی اور اس کا ذخیرہ اپنے مویشیوں کے فارموں میں اپنے جانوروں کی پرورش کے لیے استعمال کیا۔ کنگ گراس کی کم لاگت کی ترقی اور 20 سال سے زیادہ زندہ رہنے کی وجہ سے، چینی کسانوں کی آمدنی دیگر فصلوں کے مقابلے میں کم از کم مشکلات کے ساتھ کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔کنگ گراس ٹیکنالوجی کو 106 ممالک میں پھیلایا گیا ہے۔ اسے یو این ڈی پی نے چین اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان ترجیحی تعاون کے منصوبوں کے طور پر درج کیا تھا۔2019 میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہونے والی Juncao ٹیکنالوجی پر ایک میٹنگ میں اس وقت کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر ماریا فرنانڈا ایسپینوسا گارسز نے کہا کہ جڑی بوٹیوں کے پودے غربت کے خاتمے، صاف توانائی، صنفی مساوات اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ایسپینوسا نے کہاجنکاو ٹیکنالوجی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی علامت ہے۔یہ پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے کی حمایت کرتا ہے۔1980 کی دہائی کے وسط میں جب شی جن پنگ نے فوجیان میں مقامی حکومتی اہلکار کے طور پر کام کرنا شروع کیا تو انہوں نے صوبے میں دیہی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے کافی توانائی صرف کیں۔ وہاں انہوںنے کنگ گراس ایجاد کی حمایت کی جو اب عالمی سطح پر منفرد ریکارڈ بنا رہی ہے ۔