بی آر آئی, محققین کی بھرتی کے لئے سیمینار کا انعقاد

بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) سے متصل ممالک کے درمیان لائف سائنسز کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کے تحت چین کے جنوب مغربی شہر کنمنگ میں  یوننان اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز (وائی اے اے ایس) میں منعقدہ زرعی سیمینار میں بی آر آئی ممالک کے نوجوان سائنسدانوں کے لیے تحقیق پر مبنی 47 عہدوں کی نقاب کشائی کی گئی۔

وائی اے اے ایس نے چائنا اکنامک نیٹ (سی ای این)   کو بتایا کہ 47 میں سے 27 یوننان اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز (وائی اے اے ایس) سے تعلق رکھتے ہیں اور باقی کا تعلق شانڈونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آف ٹروپیکل ایگریکلچرل سائنسز اور انہوئی اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز سے ہے۔چائنہ اکنامک نیٹ  کے مطابق یہ تقریب ٹیلنٹڈ ینگ سائنٹسٹ پروگرام (ٹی وائی ایس پی) کا حصہ ہے جو 2013 میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد بی آر آئی ممالک کے نوجوان محققین کو چین میں چھ یا بارہ ماہ کے لئے کل وقتی بنیاد پر کام کرنے کے لئے بھرتی کرنا اور بی آر آئی ممالک کے درمیان تحقیقی اداروں ، یونیورسٹیوں اور کاروباری اداروں کے مابین تعاون کو سبسڈی دینا تھا۔فورم میں چین، پاکستان اور ایران سمیت بی آر آئی ممالک کے موجودہ اور سابق ٹی وائی ایس پی اسکالرز نے ٹی وائی ایس پی کے تحت اپنی تحقیقی پیش رفت اور تجربات سے آگاہ کیا۔ چائنہ اکنامک نیٹ  کے مطابق2016 اور 2017 کے درمیان ٹی وائی ایس پی پروگرام میں شمولیت اختیار کرنے والے پاکستانی سائنسدان فرمان علی نے ماحول دوست کیڑوں کے انتظام کی تکنیک وں پر اپنی تحقیق اور اس کے بعد اپنے ایک سال کے دور میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں کو  دہرایا۔ چائنہ اکنامک نیٹ  کے مطابق علی نے کہا کہ یہ پروگرام بین الاقوامی محققین کو چیلنجنگ سائنسی مطالعات کے ارد گرد متحد کرتا ہے اور نوجوان سائنسدانوں کے کیریئر کو تشکیل دینے میں مدد کرتا ہے۔ انہوں نے مزید تجویز دی کہ ٹی وائی ایس پی اسکالرز کے درمیان رابطے میں رہنے کے لئے مزید تعاون پر مبنی منصوبے قائم کیے جائیں، تبادلے کے دورے کیے جائیں اور اجلاسوں اور کانفرنسوں میں شرکت کی جائے۔ چائنہ اکنامک نیٹ  کے مطابق انٹرنیشنل ینگ سائنٹسٹ پروگرام (ٹی وائی ایس پی) اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی 10 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والے اس فورم میں چین میں دس سے زائد تحقیقی اداروں، یونیورسٹیوں اور قونصل خانوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ میانمار، پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کے سائنسدانوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔